مداوا
موسم کی چوتھی بارش تھی ۔ گل شیر نے اپنے معصوم بچوں کے ڈرے ہوئے چہرے دیکھے ۔ اسے ایسا لگا کہ جیسے سب سوالی ہوں ۔ ’’بابا یہ چھت ہم پر تو نہیں گر جائے گی ۔ ‘‘ یہ ایک ایسی ماں کے پیٹ سے افلاطونی دماغ لے کر نکلے تھے جسے ڈھنگ سے روٹی بھی میسر نہیں تھی ۔ کبھی کبھی وہ ان بچوں کے سلگتے ہوئے سوالوں سے اکتا جا تا ۔ اس کا دل چاہتا کہ ان کو آگ لگا دے ۔ دریا میں پھینک دے ۔ جان تو چھوٹے ان کم بخت ماروں سے ۔
’’ ان کے پیٹ تو جیسے سانپوں جیسے ہیں ۔ میرے حصے کا بھی رزق کھا جاتے ہیں ۔ کتنی مشکل سے کماتا ہوں ۔ ان کے پیٹوں میں کیچوے پلتے ہیں ۔ یا الہی میں کیا کروں ۔‘‘
وہ ان بچوں کو پیدا کرنے پر راضی نہیں تھا لیکن اس کے مذہب میں لکھا تھا کہ بچے خدا کی نعمت ہیں ۔ اس نے ان کے رزق کا ٹھیکہ لے رکھا ہے ۔ اس نے بھی بچہ پیدا کرنے کی کوشش کے علاوہ سب کچھ رب پر چھوڑ دیا ۔ پھر تمناءوں کے اس قبرستان میں وہ اکیلا اڑدھا نہیں تھا ۔ یہاں تو لاشوں پر کیڑوں کی حکومت تھی ۔
اب اس کی بیوی پھر امید سے تھی ۔ اس کا من کرتاتھا کہ اس کے بڑھے ہوئے پیٹ پر خوب زور سے لات مارے اور کہے ’’سالی یہ بھار آئے دن اٹھاتے تجھے شرم نہیں آتی ۔ ذرا سی بھوک برداشت کرلے تو یہ کیڑے تیرے پیٹ میں نہ کلبلاتے پھریں ۔ ‘‘
وہ اس کی کیفیت کو سمجھ جاتی ، مانواس کے من کا بھید پالیا ہو ۔ ’’گل شیر میں آپریشن کرالیتی ہوں ۔ ‘‘
وہ ہنستے ہوئے کہتا ۔ ’’ ارے ان کا ٹھیکہ تو ٹھیکے دار نے لے رکھا ہے مگر اتنا لمبا ٹھیکہ اس نے نہیں لیا ۔ اسے اور بڑے کام ہیں ۔ ‘‘
وہ بھلی مانس گل شیر کی باتوں کو سن کر اپنے لب سی لیتی ۔ وہ تو شوہر تھا ۔ ایک مرد جس کی سوچ اس سے برترتھی ۔ ایک ہی حل تھا کہ جسم کو خواہشوں کے سمندر میں پیاسا پھینک دیا جائے ۔ اس کی کوٹھری میں دو چار پائیاں تھیں ۔ ایک گل شیر کی اور دوسری بھی اسی کی ۔ ایک پلوسٹک کے بان سے بنی گئی تھی ۔ دوسری سوتر سے ۔ من میں آ گ جل رہی ہوتی تو وہ ٹھنڈے سوتر کی چارپائی پر لیٹ جاتا ۔ جسم کو حرارت دینا ہوتی ہوتی تو پلاسٹک کے بان سے بنی چارپائی پر لیٹ جاتا ۔ پلوشہ دری ز میں پر بچھاتی اور بچوں کو ساتھ لے کر سو جاتی ۔
رات کے کسی پہر گل شیر کی آنکھ کھلتی تو وہ آڑے ترچھے بمشکل سوئے ہوئے بچوں کو دیکھ کر چلانے لگتا ۔ ’’یہاں زمین بھی جگہ نہیں دیتی اور میرے وطن میں تو پہاڑ بھی سرنگوں ہو جاتے تھے ۔ جدھر دیکھو ۔ پہاڑ ہی پہاڑ ۔ ان پہاڑوں کے دامن میں چلتا ہوا گل شیر ۔ کیا موج مستی تھی ۔ ہواءو ں میں محبوبیت تھی ۔ یہاں کیا ہے ۔ نہ زمین اپنی اور نہ لوگ اپنے ۔ ‘‘
یہ صرف اس کا خیال نہیں تھا ۔ اس کے ہم وطنوں کا بھی یہی کہنا تھا کہ یہاں کی فضا میں سانپوں کا راج تھا اوریہ کم بخت چھپکلیاں تو ان ہی کی تلاش میں تھیں ۔
گل شیرپہاڑوں کا بیٹا تھا ۔ جب غیروں نے اس کی دھرتی کو نشانے پر لے لیا تو اس کے سنگی دوست سب آہستہ آہستہ کرکے نکل گئے ۔
وہاں اپنا ایک گھر تھا جس میں اپنے بستے تھے ۔ یہاں کچھ بھی اپنا نہیں تھا لیکن یہاں اور بہت کچھ تھا، یہاں رنگ وبو کی محفلیں تھیں ۔ یہاں نوٹ فضا میں گردش کرتے رہتے تھے ۔ جو بھی ہمت کرتا ، ان کو پکڑ لیتا ۔ اس کے دیکھا دیکھی کئی دوستوں نے اپنا کاروبار چلا لیا ۔ اس کے پاس سرمایہ تو تھا نہیں۔ اس نے ایک ریڑھی بنا لی ۔ مشکل اس وقت ہوئی جب اس کے اپنے ہی وجود نے اس کی کمائی کے حصے دار بڑھا دئیے ۔ ایک بیوی اور چاربچے پالنا کوئی آسان کام تھوڑی تھا ۔ اسے زندگی بھر کے لیے عورت کو ساتھ رکھنے کا ایک ہی فائدہ نظرآتا تھاکہ ایک زنانہ وجود کی تلاش میں نکلنا تو نہیں پڑتا تھا ۔
’’ہم سب ادھر آکر کہاں کے امیر ہوگئے ۔ کچھ ہی تو ہیں جو کندھوں پر امارت کی شال اوڑھے ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھے ہیں لیکن جس کا بھی رنگ سرخ و سپید دیکھتے ہو ۔ نفرت کی دھار اس پر پھینک دیتے ہو ۔ ہاں اس میں تمہارا بھی کیا قصور ۔ ہم بھی توخبر ملتے ہی اپنے ہاتھوں میں لاٹھیاں اور نیفے میں پستول اڑسے تمہیں سبق سکھانے کو چڑھ دوڑتے ہیں ۔ کوئی بات کرکے جائے کہاں ۔ لیکن ہم کوئی تمہارے وطن میں اپنی مرضی سے تھوڑی آئے ہیں ۔ ارے بابا ۔ ہم مجبور تھے ۔ جب ز میں پر بارودی سرنگیں بچھی ہوں تو مزدوری کو کیسے نکلیں ۔ جب گو لہ و بارود فضا میں گھومتا پھر رہا ہو تو فلک کے نیچے کون آئے ۔ وردی نے کندھا دیا ، ہم نکل آئے ۔ ‘‘
ہ دن بھر ریڑھی پر سودا بیچتے بیچتے سوچ کی وادیوں میں چلتا پھرتا رہتا ’’مجھے جان بچا کر یہاں نہیں آنا چاہیے تھا ۔ مجھے بندوق تان کر مجاہدوں کے ساتھ کھڑے ہو جانا چاہیے تھا ۔ ‘‘
اسے یاد آتا کہ کیسے اس کی ماں اپنی جائے نماز سمیت صحن میں پھٹنے والے بم سے شہید ہو گئی تھی ۔ اس کے جسم کی دھجیوں نے جب فضا میں اڑتے ہوئے گل شیر کے چہرے کو چھو ا تھا تو اسے احساس ہوا تھا کہ جان جانے کاخوف کیسا ہوتا ہے ۔ اس کے وجود نے خود کو سنبھالنے سے ہی انکار کردیا تھا ۔ پھروہ آنکھوں پر پٹی باندھ اورکا نوں میں انگلی دے کر اپنے وطن سے نکل آیا تھا ۔ اب وہ کھڑا سوچ رہا تھا کہ اس نے اچھا کیا یا برا ۔ ایک ماں تو مر گئی تھی۔ دوسری کو وہ خود شمنوں کے نرغے میں چھوڑ آیا تھا ۔ جب سے اس نے یہ سنا تھاکہ یہاں کے شہری نہیں چاہتے کہ ان لوگوں کو شہریت دی جائے اور یہاں کا باقاعدہ شہری تسلیم کیا جائے ۔ وہ غصے سے پاگل ہوگیا ۔
’’دھت تیرے کی گل شیر ۔ یہ پایا تو نے مگر تمہارے پاس تو شہریت ہے ۔ شاید تیری روح ابھی تک تورا بورا کی پہاڑوں میں گردش کرتی ہے لیکن یہ جان حب وطن سے بھی پیاری کیوں ہے ۔ ‘‘
دل کی نازکی نے اسے در بدر ہونے پر آمادہ کیا تھا لیکن دماغ اپنے اسپ کے ساتھ ہمیشہ اس پر چڑھائی کیے رکھتا ۔ ’’گل شیر تم نے بچے پیدا کرنے کے علاوہ کیا ہی کیا ہے‘‘ ۔
آج پھر سر شام ہی وہ اس کی ٹھوکروں کی زد میں تھا ۔ بکتا جھکتا گل شیر مجبوراً نصف شب کو اٹھا اور بچوں کے پاس گیا ۔ ’’کتنے پر نور ہیں یہ چہرے ۔ باپ کے چہرے پر اذیت کی جکڑ بندی ہے اور یہ مسرت کے جنگل میں ڈیرہ ڈالے بیٹھے ہیں ۔ ‘‘
اس نے بڑے بچے کو دائیں کندھے پر ڈال لیا اور منجھلے کو بائیں کندھے پر ۔ سود کی دگنی رقم کے ساتھ وہ گھرسے نکل کھڑا ہوا ۔ علی الصبح اس کی واپسی ہوئی ۔ پلوشہ کی آنکھ کھلی تو نہ بڑا بچہ تھا اور نہ منجھلا ۔
’’ گل شیر ۔ سلمان اور ریحان نہیں ہے ۔ کہاں گئے بچے ۔ ‘‘
گل شیر نے چیختی ہوئی پلوشہ کو دیکھا تو بولا ۔ ’’سب بچوں کو پالنے کے لیے پیدانہیں کیا جاتا ۔ کچھ جہاد کے لیے بھی ہوتے ہیں ۔ ‘‘