مجلس غم، نہ کوئی بزم طرب، کیا کرتے

مجلس غم، نہ کوئی بزم طرب، کیا کرتے
گھر ہی جا سکتے تھے آوارۂ شب، کیا کرتے


یہ تو اچھا کیا تنہائی کی عادت رکھی
تب اسے چھوڑ دیا ہوتا تو اب کیا کرتے


روشنی، رنگ، مہک، طائر خوش لحن، صبا
تو نہ آتا جو چمن میں تو یہ سب کیا کرتے


دل کا غم دل میں لیے لوٹ گئے ہم چپ چاپ
کوئی سنتا ہی نہ تھا شور و شغب کیا کرتے


بات کرنے میں ہمیں کون سی دشواری تھی
اس کی آنکھوں سے تخاطب تھا سو لب کیا کرتے


کچھ کیا ہوتا تو پھر زعم بھی اچھا لگتا
ہم زیاں کار تھے، اعلان نسب کیا کرتے


دیکھ کر تجھ کو سرہانے ترے بیمار جنوں
جاں بہ لب تھے، سو ہوئے آہ بہ لب، کیا کرتے


تو نے دیوانوں سے منہ موڑ لیا، ٹھیک کیا
ان کا کچھ ٹھیک نہیں تھا کہ یہ کب کیا کرتے


جو سخن ساز چراتے ہیں مرا طرز سخن
ان کا اپنا نہ کوئی طور، نہ ڈھب، کیا کرتے


یہی ہونا تھا جو عرفانؔ ترے ساتھ ہوا
منکر میرؔ بھلا تیرا ادب کیا کرتے