میں تم کو سوچ رہا ہوں مگر اداس نہیں

میں تم کو سوچ رہا ہوں مگر اداس نہیں
تو آبشار سکوں ہے بدن کی پیاس نہیں


بنا چھوئے ہی مرے خواب چوم لیتا ہو
بہت قریب ہو حالانکہ میرے پاس نہیں


خزاں کی رت میں بھی خوشبو سنبھال رکھی ہے
میں تم سے دور ہوا ہوں مگر اداس نہیں


قریب آن کے بیٹھو مگر گلے نہ لگو
دوا جو دل کے لئے ہے بدن کو راس نہیں


رنگوں میں خون کی مانند ہے رواں مجھ میں
تو اندرون بدن ہے مرا لباس نہیں


قرار ترک تعلق تھا سو نبھایا بھی
شراب چھوڑ دی میں نے مگر گلاس نہیں