اک تو وعدہ کہ تمہیں چھوڑ کے جانا بھی نہ تھا

اک تو وعدہ کہ تمہیں چھوڑ کے جانا بھی نہ تھا
دوسرا کوئی بچھڑنے کا بہانہ بھی نہ تھا


کاغذی ناؤ میں سامان مرا لاکھوں کا
اور دریا کے سوا کوئی ٹھکانا بھی نہ تھا


کاٹ کر پیڑ مکاں اپنا بنانا تھا مگر
ان پرندوں کے مکانوں کو گرانا بھی نہ تھا


انقلاب آئے گا سنتے ہیں ضرور آئے گا
تھک گئی آنکھ مگر اس کو سلانا بھی نہ تھا


روز اول سے ہی تم باندھ کے رکھتے سامان
اب یہاں دل نہیں لگتا تو لگانا بھی نہ تھا


اپنے شعروں سے جری کی ہے ترے آنچل کی
اس سے نایاب مرے پاس خزانہ بھی نہ تھا