میں نے بھی اپنے دھیان میں اپنا سفر کیا

میں نے بھی اپنے دھیان میں اپنا سفر کیا
اس نے بھی راستے کو ذرا مختصر کیا


پوچھو کہ اس کے ذہن میں نقشہ بھی ہے کوئی
جس نے بھرے جہان کو زیر و زبر کیا


سب فاصلے مری ہی خطا تھے مجھے قبول
لیکن تری صدا نے بھی کتنا سفر کیا


اک روز بڑھ کے چوم لیے میں نے اس کے ہونٹ
اپنے تمام زہر کو یوں بے اثر کیا


وہ ورد کر رہا تھا کسی اور نام کا
تعویذ نے مریض پہ الٹا اثر کیا


مجھ کو تھی ناپسند اسے شاعری پسند
تھک ہار کے یہ عیب بھی آخر ہنر کیا