میں نے اپنا وجود گٹھڑی میں باندھ لیا
چوتھی بار
بنگال کی گاتی ندیا کے کنارے
وہ مجھ پر منکشف ہوئی
جہاں سنہری مچھلیاں
نیلے سروں کو بلوتی تھیں
اور روشنی بانٹتے پیڑ کلام کرتے تھے
اس کی سحر پھونکتی آنکھ نے
مجھے پرندہ بننے کا حکم دیا
میں اس کے شانے کی ہری شاخ پر بیٹھ کر
اپنا لحن ایجاد کرنے لگا
اس کے ہرے بدن کا سایہ
سوا نیزے پہ تھا
میں نے اس کے بدن کے سائے سے
نرم بچھونا تخلیق کیا
اور دنیا کے چہرے پر تھوک دیا
ایک طویل نیند کے بعد
میں نے برھما کی طرح آنکھ کھولی
اس کا گھنا سایہ
میرے وجود پر سمٹ رہا تھا
اس کے لذیذ پھلوں میں
میرے لیے کڑواہٹ رینگنے لگی
میں نے اپنا ریزہ ریزہ وجود سمیٹ کر
گٹھڑی میں باندھا
قطب نما کو
خلیج بنگال کے خط پر رکھ کر
پاؤں سے ٹھوکر ماری
اور ہوا پر پاؤں رکھتا ہوا
پانچویں سمت میں آگے بڑھ گیا
میں نے اپنے دل کو یقین دلایا
کہ اس کی سسکیوں کا مخاطب
میں نہیں تھا