Jawaz Jafri

جواز جعفری

جواز جعفری کے تمام مواد

3 غزل (Ghazal)

    کبھی دیوار کو ترسے کبھی در کو ترسے

    کبھی دیوار کو ترسے کبھی در کو ترسے ہم ہوئے خانہ بدوش ایسے کہ گھر کو ترسے جھوٹ بولوں تو چپک جائے زباں تالو سے جھوٹ لکھوں تو مرا ہاتھ ہنر کو ترسے قریۂ نامہ براں اب کے کہاں جائیں کہ جب ترے پہلو میں بھی ہم اس کی خبر کو ترسے سب کے سب تشنۂ تکمیل ہیں اس شہر کے لوگ کوئی دستار کو ترسے ...

    مزید پڑھیے

    اب کے میدان رہا لشکر اغیار کے ہاتھ

    اب کے میدان رہا لشکر اغیار کے ہاتھ گروی اس پار پڑے تھے مرے سالار کے ہاتھ ذہن اس خوف سے ہونے لگے بنجر کہ یہاں اچھی تخلیق پر کٹ جاتے ہیں معمار کے ہاتھ اب سر قریۂ بے دست پڑا ہے کشکول روز کٹ جاتے تھے اس شہر میں دو چار کے ہاتھ لوٹ کچھ ایسی مچی شہر کا در کھلتے ہی ہر طرف سے نکل آئے در و ...

    مزید پڑھیے

    ادا زبان سے حرف نہیں زیادہ ہوا

    ادا زبان سے حرف نہیں زیادہ ہوا اسی پہ قتل مرا سارا خانوادہ ہوا طلب نے زین سجائی کرن کے گھوڑے پر کبھی جو سیر مہ و مہر کا ارادہ ہوا ہمیں نے جست بھری وقت کے سمندر میں ہمیں سے دامن ارض و سما کشادہ ہوا عدو نے لوٹ لی مقتل میں جب مری پوشاک تو میرا خون مرے جسم کا لبادہ ہوا ادب کا زینہ ...

    مزید پڑھیے

9 نظم (Nazm)

    وہ ہاتف کی زبان میں کلام کرنے لگی

    ایک شام اس نے مجھے اپنی پناہ گاہ سے باہر نکالا اور اپنے سرسبز بازوؤں کے شہتوت سے کشتی تیار کی کشتی جس نے سب سے پہلے دوسرا کنارا ایجاد کیا تھا آسمان پر چاند آدھی مسافت طے کر چکا تو وہ مجھے اپنی نئی کشتی میں بٹھا کر سمندر کی تہ میں اترنے لگی جہاں اس نے اپنے خواب چھپا رکھے تھے اگلی ...

    مزید پڑھیے

    میں نے باغ کی جانب پیٹھ کر لی

    میں نے دجلہ و فرات کے مشرق میں ایک قدیم اور روشن پیڑ کے نیچے سجدوں کا خراج وصول کیا اور پھل دار درختوں سے ڈھکے باغ میں مقیم ہوا جسے میرے اور اس عورت کے لیے آراستہ کیا گیا تھا جس کی جنم بھومی میری دائیں پسلی تھی میں نے پہلی بار اسے زندگی کے پیڑ کی سنہری شاخوں کے درمیان رینگتے ...

    مزید پڑھیے

    اساطیری نظم

    آخری بار کوہ ندا کے اس پار اس کے سنہری وجود کی آیت میرے دل کے قرطاس پر تسطیر ہوئی میں سات سوالوں کے جواب تلاش کرتا ہوا اس اجنبی سر زمین پر اترا تھا اس کی سنہری ناف کا پیالہ ختن سے آئی کستوری سے لبریز تھا اور سینے پر لالہ کے دو پھول کھلے تھے روشنی اس کے چہرے کے خد و خال تخلیق کرنے ...

    مزید پڑھیے

    شہر کی گلیاں چراغوں سے بھر گئیں

    رات کے آخری پہر میں نے مقدس فلائی کی سرحد پہ پاؤں رکھا اس کے سبز پیرہن کی خوشبو میرے استقبال کے لیے موجود تھی میرے خاک آلود گھٹنوں نے زمین کی خوشبو دار ناف کو چھوا تو میں نے اپنا ملبوس چاک کر ڈالا وہ پیپرس کے جنگلوں کے شمالی کنارے پہ بیٹھی نیل کے پانیوں کو کات رہی تھی اس نے میرے ...

    مزید پڑھیے

    زمین سمٹ کر میرے تلوے سے آ لگی

    اے تین چہروں میں روشن پیشانی والے تیرا نقش پائیدار اور قدیم ہے تو نے سفید بیضوی زنداں سے باہر پاؤں رکھا تو زمین تیرے استقبال کے لیے موجود نہ تھی تو نے نرم لہجے میں ناپید سمتوں کو آواز دی اور اپنے چاروں اور پھیلنے لگا تو نے کنول کی پتیوں سے بچھونا تخلیق کیا اور اپنی زندگی کا ...

    مزید پڑھیے

تمام