میں کیا بتاؤں کیسی پریشانیوں میں ہوں
میں کیا بتاؤں کیسی پریشانیوں میں ہوں
کاغذ کی ایک ناؤ ہوں اور پانیوں میں ہوں
چہرے کے خد و خال میں محدود میں نہیں
اک آئنہ ہوں اپنی ہی حیرانیوں میں ہوں
دشواریوں کو ٹھیک سے سمجھا نہیں ابھی
مشکل مری یہی ہے کہ آسانیوں میں ہوں
موجوں سے دور رہ کے بھی بدلا نہیں نصیب
ساحل کے آس پاس بھی طغیانیوں میں ہوں
مجھ تک ہی لوٹ آتی ہے میری صدا کی گونج
اک بازگشت سا کہیں ویرانیوں میں ہوں
اوڑھا ہوا ہے میں نے یہ کیسا عجب لباس
اتنا ڈھکا ہوا ہوں کہ عریانیوں میں ہوں
رخت سفر میں کیجئے میرا شمار بھی
شامل میں اپنی بے سر و سامانیوں میں ہوں