میں کہاں اور عرض حال کہاں
میں کہاں اور عرض حال کہاں
وہ کہاں اور مرا خیال کہاں
میں ستارہ نہ تم گلاب ہوئے
مل رہے ہیں مگر وصال کہاں
آگ سوچوں تو خاک لکھتا ہوں
متفق لفظ اور خیال کہاں
ہے وفا کا صلہ وفا سچ ہے
لیکن ایسی کوئی مثال کہاں
مجھ کو پامال عمر کرتے ہوئے
جا رہے ہیں یہ ماہ و سال کہاں
پوچھتا ہوں جواز کون و مکاں
لے گئی جرأت سوال کہاں
اسدؔاللہ خاں کی دین ہے یہ
شوقؔ تم ایسے خوش خیال کہاں