میں اضطراب میں ہوں شام سے سحر کے لئے
میں اضطراب میں ہوں شام سے سحر کے لئے
کوئی چراغ عطا کر دے رات بھر کے لئے
خدا بچائے تمہیں ایسی ویسی نظروں سے
گلے میں ڈال لو تعویذ تم نظر کے لئے
قفس نصیب ہیں نا آشنائے آزادی
یہ قید ایک چنوتی ہے بال و پر کے لئے
نگاہ برق میں وہ خار سے کھٹکنے لگے
جو تنکے جمع کئے ہم نے اپنے گھر کے لئے
مسیح وقت تو ایسی نفس سہی لیکن
علاج ہے کوئی زخم دل و جگر کے لئے
تمہارے حسن و ادا کے ہمیں شکار نہیں
نہ جانے کتنوں کے دل تم نے بن سنور کے لئے
تمام عمر اندھیرے میں کٹ گئی یا رب
کوئی چراغ عطا کر ہمارے گھر کے لئے
کسی کے سامنے سر خم کروں میں کیوں عاجزؔ
بنی ہے میری جبیں ان کے سنگ در کے لئے