کچھ سازگار جب مرے حالات بھی نہیں
کچھ سازگار جب مرے حالات بھی نہیں
ایسے میں میرے سر پہ ترا بات بھی نہیں
مشتاق دید بھی نہیں یہ طرفہ بات ہے
دل میں خیال ترک ملاقات بھی نہیں
کہتا نہیں میں آپ کو بیگانہ خو مگر
پہلے سی مجھ پہ لطف و عنایات بھی نہیں
مجھ کو بنایا مملکت غم کا تاجدار
اور میرے لب پہ شکر کے کلمات بھی نہیں
کس سے کروں امید میں حاجت روائی کی
جز تیرے کوئی قبلۂ حاجات بھی نہیں
ساقی نے بھی مجھے نظر انداز کر دیا
مجھ پر نگاہ میر خرابات بھی نہیں
عاجزؔ ہوں خط لکھوں تو انہیں کس طرح لکھوں
کاغذ نہیں قلم نہیں داوات بھی نہیں