میں اس حصار سے نکلوں تو اور کچھ سوچوں
میں اس حصار سے نکلوں تو اور کچھ سوچوں
تمہارے پیار سے نکلوں تو اور کچھ سوچوں
تری گلی کے علاوہ بھی اور قریے ہیں
جو اس دیار سے نکلوں تو اور کچھ سوچوں
تمہارے ہجر کی صدیاں تمہارے وصل کے دن
میں اس شمار سے نکلوں تو اور کچھ سوچوں
رچا ہوا ہے ترا عشق میری پوروں میں
میں اس خمار سے نکلوں تو اور کچھ سوچوں
یہ میرا جسم کہ ماتم سرائے حسرت ہے
میں اس مزار سے نکلوں تو اور کچھ سوچوں
یہ مجھ میں کون مرے رات دن سنبھالتا ہے
اس اختیار سے نکلوں تو اور کچھ سوچوں
تمہارے جسم کی خوشبو نے کر دیا مسحور
اس آبشار سے نکلوں تو اور کچھ سوچوں
یہ بے قراری مری روح کا اجالا ہے
میں اس قرار سے نکلوں تو اور کچھ سوچوں