میں ایک اکیلا ہوں لیکن ظالم کا زمانہ ساتھی ہے

میں ایک اکیلا ہوں لیکن ظالم کا زمانہ ساتھی ہے
وہ ظلم کرے میں ظلم سہوں یہ رسم ابھی تک باقی ہے


جب خون جگر جم جاتا ہے دامن پہ اندھیروں کے جا کر
تب رات کے پردے جلتے ہیں تب جا کے سحر ہو پاتی ہے


ساون ہو کہ پت جھڑ ہو یارو کچھ فرق نہیں ہے اپنے لیے
ہر رت جو بدل کر آتی ہے وہ غم کے تحائف لاتی ہے


دنیا میں ہمیں اکثر یارب اپنی یہ حیات فانی ہی
دوزخ کے بھیانک منظر بھی لا لا کے یہاں دکھلاتی ہے


وہ کھلتے رہیں کلیوں کی طرح وہ ہنستے رہیں پھولوں کی طرح
اے سوزؔ ہمیں جینے کے لئے یہ زخم جگر ہی کافی ہے