میں بھی کب سے چپ بیٹھا ہوں وہ بھی کب سے چپ بیٹھی ہے
میں بھی کب سے چپ بیٹھا ہوں وہ بھی کب سے چپ بیٹھی ہے
یہ ہے وصال کی رسم انوکھی یہ ملنے کی ریت نئی ہے
وہ جب مجھ کو دیکھ رہی تھی میں نے اس کو دیکھ لیا تھا
بس اتنی سی بات تھی لیکن بڑھتے بڑھتے کتنے بڑھی ہے
بے صورت بے جسم آوازیں اندر بھیج رہی ہیں ہوائیں
بند ہیں کمرے کے دروازے لیکن کھڑکی کھلی ہوئی ہے
میرے گھر کی چھت کے اوپر سورج آیا چاند بھی اترا
چھت کے نیچے کے کمروں کی جیسی تھی اوقات وہی ہے