میں اپنی ذات سے باہر نکلنا چاہتا ہوں
میں اپنی ذات سے باہر نکلنا چاہتا ہوں
میں دریا کی طرح رستہ بدلنا چاہتا ہوں
گھنی بے نور خاموشی کے جنگل سے نکل کر
چمکنے والی آوازوں میں ڈھلنا چاہتا ہوں
میں جس پتھر کے اندر قید ہوں چشمے کی صورت
اسی پتھر کے سینے سے ابلنا چاہتا ہوں
نہ جانے کتنے گرد آلود انسانوں کی خاطر
زمیں پر آسماں کا رنگ ملنا چاہتا ہوں
جہاں محسوس ہو مجھ کو تری سانسوں کی خوشبو
انہی مہکے ہوئے رستوں پہ چلنا چاہتا ہوں
تعفن بڑھ گیا چاروں طرف حد سے زیادہ
میں اپنے دل کی خوشبوئیں اگلنا چاہتا ہوں