ہر اک لمحہ مجھے ٹھہرا ہوا محسوس ہوتا ہے

ہر اک لمحہ مجھے ٹھہرا ہوا محسوس ہوتا ہے
مجھے سارا جہاں اک رتجگا محسوس ہوتا ہے


سنائی کچھ نہیں دیتا دکھائی کچھ نہیں دیتا
مگر چاروں طرف اک جمگھٹا محسوس ہوتا ہے


ترا ہی نام لیتا ہوں تو پھر مجھ کو وجود اپنا
ہواؤں پر لکھا حرف دعا محسوس ہوتا ہے


مری پلکوں پہ شبنم گر رہی ہے نیند کی لیکن
مجھے ہر ایک سایہ جاگتا محسوس ہوتا ہے


ہزاروں سال پہلے کی شناسائی نہیں بھولا
مجھے ہر آدمی دیکھا ہوا محسوس ہوتا ہے


مجھے اپنا ہی قد لگتا ہے کیوں اونچا پہاڑوں سے
مجھے اپنا یہ سایہ کیوں بڑا محسوس ہوتا ہے


نہ جانے کون سی منزل پہ آ ٹھہرا ہوں میں انجمؔ
جہاں ہر ایک سناٹا صدا محسوس ہوتا ہے