میں اپنی بلندی کو بھی کھو کر نہیں گرتا

میں اپنی بلندی کو بھی کھو کر نہیں گرتا
ٹوٹا ہوا تارہ ہوں زمیں پر نہیں گرتا


ہر شاخ سے جڑ پھوٹ کے گرتی ہے زمیں میں
برگد ہوں میں آندھی میں اکھڑ کر نہیں گرتا


وہ پیڑ ثمر دار کہیں گھر میں نہیں ہے
آنگن میں مرے اب کوئی پتھر نہیں گرتا


اس محفل یاراں سے اگر جاتے ہو جاؤ
اک اینٹ کھسکنے سے کبھی گھر نہیں گرتا


لگتا ہے کسی تیر سے مجروح ہوا ہے
ورنہ تری چھت پر وہ کبوتر نہیں گرتا


وسعت ہی کہاں ہے کہ سما جائے کسی طرح
اس واسطے ندیوں میں سمندر نہیں گرتا


ہر روز بچاتا ہوں میں خود کو یہاں رحمتؔ
کیسے کہوں سر پر کوئی پتھر نہیں گرتا