دریا تھے بند کوزے میں ہم ہو کے رہ گئے
دریا تھے بند کوزے میں ہم ہو کے رہ گئے
یہ کیا کہ اپنے آپ میں کم ہو کے رہ گئے
ہر وقت گرم رہتے تھے ہم ریت کی طرح
پانی کا لمس ملتے ہی نم ہو کے رہ گئے
چاہا کہ ابتدا میں کروں اس کی داستاں
لکھنے چلا تو ہاتھ قلم ہو کے رہ گئے
خاموشیوں میں گم ہوئی دل کی ہر ایک چوٹ
گزرا وہ غم کہ پیکر غم ہو کے رہ گئے
الجھا ہے زندگی کے مسائل سے آدمی
ویران سارے دیر و حرم ہو کے رہ گئے
رحمتؔ نہ ڈوبنے سے بچایا کوئی ہمیں
نظارگی کی لہروں میں ضم ہو کے رہ گئے