میں اپنے آپ سے غافل نہ یوں ہوا ہوتا

میں اپنے آپ سے غافل نہ یوں ہوا ہوتا
مرے بھی پاس اگر کوئی آئنہ ہوتا


ذرا تو سوچ کر اتنا ہی کر لیا ہوتا
مجھے کتاب سمجھ کر ہی پڑھ لیا ہوتا


تمام عمر فقط ایک آرزو ہی رہی
کیا تھا پیار تو پھر ٹوٹ کر کیا ہوتا


یہ اور بات کہ میں تجھ سے دور ہوں لیکن
میں تیرے پاس بھی ہوتا بھلا تو کیا ہوتا


پپیہا ساونوں میں یوں پکارتا نہ کبھی
اگر تو چاندنی راتوں میں مل گیا ہوتا


مری بساط کے بارے میں پوچھنے والے
کسی فقیر کا چہرہ ہی پڑھ لیا ہوتا


کروں تو کس سے کروں میں گلا جہالت کا
یہ آرزو تھی کہ میں بھی پڑھا لکھا ہوتا


کھنڈر زمیں پہ بسا لیتا بستیاں وہ بھی
اگر وہ وقت سے پہلے نہ مر گیا ہوتا


بھری بھری کسی محفل میں دیکھ کر اس کو
میں اپنے جسم کے اندر ہی چھپ گیا ہوتا


مرے قلم سے ٹپکتا ہوا لہو رضویؔ
کسی کی آنکھ کا کاجل ہی بن گیا ہوتا