میکدے کے بجھ گئے سارے چراغ

میکدے کے بجھ گئے سارے چراغ
کرب جاں سوزی سے دل ہارے چراغ


میری پلکوں پر جلے تھے جو کبھی
بن گئے وہ عرش کے تارے چراغ


درد سے کچھ اس طرح سمٹی ہے لو
آہ بھر کر چپ ہیں بے چارے چراغ


میں وہ رہرو ہوں کہ جس کی راہ میں
تیرگی نے ہر قدم وارے چراغ


بختؔ ظرف انجمن پر رات بھر
ٹمٹمائے درد کے مارے چراغ