مغرب اسلام سے خائف کیوں ہے

مغربی دنیا اسلام اور مسلمانوں سے نفرت کے اظہار میں تھک کر نہیں دے رہی۔ ایک ہزار سال کی مدت بہت طویل ہوتی ہے، مگر مغرب کی اسلام اور مسلمانوں سے نفرت نے ایک ہزاریے کو ایک سال میں ڈھال دیا ہے۔ بدقسمتی سے اسلام سے مغرب کی نفرت جتنی مغرب کی زبان پر ہے اس سے زیادہ نفرت اُس کے دل میں ہے۔ اس نفرت کی تاریخ دل دہلا دینے والی ہے۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی اطلاع عیسائیوں اور یہودیوں دونوں کو تھی، اور وہ کہا کرتے تھے کہ ہمیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ دیکھنا نصیب ہوگا تو ہم نہ صرف یہ کہ آپؐ پر ایمان لائیں گے بلکہ آپؐ کے حریفوں کے خلاف جہاد میں بھی حصہ لیں گے۔ مگر جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی تو عیسائیوں اور یہودیوں کی اکثریت نے آپؐ پر ایمان لانے سے انکار کردیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے انکار کا یہی پودا بالآخر اسلام اور مسلمانوں کی نفرت کا درخت بن گیا۔

یہ ایک سامنے کی حقیقت ہے کہ مسلمانوں کی عظیم اکثریت صلیبی جنگوں کی اصطلاح استعمال تو کرتی ہے مگر اس کو ابھی تک یہ معلوم نہیں کہ صلیبی جنگیں کب، کیسے اور کیوں شروع ہوئیں؟ صلیبی جنگوں کی تاریخ یہ ہے کہ 1095ء میں اُس وقت کے پوپ اربن دوئم نے ایک کلیسا میں کھڑے ہوکر تقریر کی، اس نے کہاکہ (معاذ اللہ) اسلام ایک شیطانی مذہب ہے اور اس کے ماننے والے ایک شیطانی مذہب کے پیروکار ہیں۔ پوپ اربن نے دعویٰ کیا کہ میرے قلب پر یہ بات القا کی گئی ہے کہ عیسائیوں کا یہ فرض ہے کہ وہ اس شیطانی مذہب اور اس کے ماننے والوں کو صفحۂ ہستی سے مٹادیں۔ پوپ صرف یہ کہہ کر نہیں رہ گیا، اُس نے یورپ کو عملاً ایک صلیبی جھنڈے کے نیچے جمع ہونے کی ہدایت بھی کی۔ یہ عیسائیت کی سب سے بڑی شخصیت کی آواز تھی، چنانچہ یہ آواز صدابہ صحرا ثابت نہ ہوئی۔ یورپ 1095ء میں ایک صلیبی پرچم کے نیچے جمع ہوا اور اُن صلیبی جنگوں کی ابتدا ہوئی جو کم و بیش دو سوسال جاری رہیں۔ ان جنگوں کے آغاز میں صلیبی فوجوں نے مسلمانوں کے روحانی اور سیاسی مرکز بیت المقدس کو تاراج کردیا اور وہاں اس بڑے پیمانے پر مسلمانوں کا قتلِ عام ہوا کہ مغربی مؤرخین کے بقول بیت المقدس کی گلیاں خون سے بھر گئیں اور گلیوں میں گھوڑوں کو چلانا دشوار ہوگیا۔ مغرب مسلمانوں پر دہشت گردی کا الزام عائد کرتا ہے، مگر صلیبی جنگوں کی وحشت اور سفاکی مسلمانوں نے ایجاد نہیں کی تھی، یہ مغرب کی ایجاد کردہ تھی۔

مغرب نے 19 ویں صدی میں ایک بار پھر مسلمانوں کے خلاف جارحیت ایجاد کی۔ مغربی اقوام اپنے اپنے جغرافیے سے نکلیں اور پوری مسلم دنیا پر قابض ہوگئیں۔ فرق یہ تھا کہ کہیں انگریزوں کا قبضہ تھا، کہیں فرانسیسی مسلط تھے، اور کہیں جرمنوں، پرتگالیوں، اطالویوں اور ولندیزیوں نے مسلمانوں کو اپنا غلام بنایا ہوا تھا۔ یہ اس نوآبادیاتی دور کا آغاز تھا جو ڈیڑھ صدی تک مسلمانوں کا خون چوستا رہا۔ اس نوآبادیاتی دور کی ’’ایجاد‘‘ کا سہرا بھی مغرب کے سر ہے۔ مسلمانوں کا اس عہدِ جبر کی ایجاد میں کوئی حصہ نہ تھا۔ اہلِ مغرب کی اسلام اور مسلمانوں سے نفرت اور ان کے صنعتی و تجارتی مفادات نے انہیں مسلم دنیا کو مقبوضہ علاقے میں ڈھالنے پر مائل کیا تھا۔ نوآبادیاتی دور میں مغرب کے اندر مستشرقین کا گروہ پیدا ہوا۔ اس گروہ کا کام یہ تھا کہ وہ علم کی آڑ لے کر اسلام اور سیرتِ طیبہ پر رکیک حملے کرے۔ مسلم دنیا کی عظیم اکثریت اس حقیقت سے آگاہ نہیں ہے کہ عیسائی دنیا اسلام کو آسمانی مذہب اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول تسلیم نہیں کرتی۔ اس کا خیال ہے کہ معاذ اللہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے توریت اور انجیل کو ملا کر قرآن بنالیا، اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود معاذ اللہ نبی نہیں ہیں۔ مغربی دنیا میں آج رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی جو وارداتیں ہورہی ہیں ان کی پشت پر مغرب کی یہی نفرت پوری طرح کلام کرتی نظر آتی ہے۔

مغربی دنیا نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تیسری بڑی یلغار نائن الیون کے بعد شروع کی۔ اِس بار بھی مغرب نے کسی جواز کے بغیر اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بنایا۔ امریکہ نے دعویٰ کیا کہ اسامہ بن لادن اور القاعدہ نائن الیون کے حملوں کے ذمے دار ہیں، مگر امریکہ کبھی اس سلسلے میں ٹھوس شہادتیں پیش نہیں کرسکا۔ اس ضمن میں امریکہ کی ساکھ کا عالم یہ ہے کہ اُس نے نائن الیون کے حملوں میں ملوث افراد کی جو پہلی فہرست جاری کی ان میں سے پانچ زندہ نکل آئے۔ اس کے بعد امریکہ کو دہشت گردوں کی نئی فہرست جاری کرنی پڑی۔ اس سلسلے میں خود امریکہ کے متعدد ماہرین کا خیال یہ ہے کہ اسامہ بن لادن کے پاس ٹوئن ٹاورز کو منہدم کرنے کی ٹیکنالوجی نہ تھی، چنانچہ نائن الیون امریکہ کے اندرونی عناصر کی کارستانی ہے۔ اس خیال کو اس حقیقت سے تقویت ملتی ہے کہ مغربی دنیا نے نائن الیون کے بعد اپنے ردعمل کو صرف اسامہ بن لادن اور القاعدہ تک محدود نہ رکھا، اس نے اسلام، اسلامی تہذیب، عالمِ اسلام اور پوری امتِ مسلمہ کے خلاف نفرت کا اظہار شروع کردیا۔ امتِ مسلمہ کا کوئی ترجمان ہی نہیں ہے، لہٰذا نائن الیون کے بعد مغربی دنیا کے اہم ترین افراد نے جوکچھ کہا امتِ مسلمہ اس پر خاموش رہی۔ اس کا کوئی ترجمان ہوتا تو وہ اس پر شدید ترین احتجاج کرتا۔ بدقسمتی سے خود امتِ مسلمہ میں نیند میں چلنے والوں کی دنیا ہے، چنانچہ مغرب نے اسلام، اسلامی تہذیب اور مسلمانوں کے تعلق سے جو کچھ کہا وہ امتِ مسلمہ کے اجتماعی حافظے کا حصہ نہ بن سکا۔ یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ امریکہ کے صدر جارج بش نے نائن الیون کے بعد امریکی قوم سے خطاب کرتے ہوئے ’’کروسیڈ‘‘ کے آغاز کا اعلان کیا۔ کروسیڈ صلیبی جنگ کو کہتے ہیں، مگر چونکہ امتِ مسلمہ کا کوئی ترجمان ہی نہیں اس لیے جارج بش کی اصطلاح پر کسی جانب سے کوئی شدید احتجاج سامنے نہ آسکا۔ اِدھر اُدھر سے جو دو چار آوازیں اٹھیں اُن کے جواب میں وہائٹ ہائوس نے فرمایا کہ خطاب کرتے ہوئے جارج بش کی زبان پھسل گئی۔ حالانکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ امریکی صدر لکھی ہوئی تقریر کررہے تھے، وہ فی البدیہہ خطاب نہیں فرما رہے تھے۔ چنانچہ کروسیڈ کی اصطلاح شعوری طور پر استعمال کی گئی تھی۔ مگر اس کے بعد اس سے بھی بڑی واردات ہوئی، اٹلی کے وزیراعظم سلویو برلسکونی نے فرمایا کہ مغربی تہذیب اسلامی تہذیب سے برتر ہے، اور اس نے جس طرح کمیونزم کو شکست دی ہے اسی طرح اسلامی تہذیب کو بھی شکست دے گی۔ امتِ مسلمہ کا کوئی ترجمان ہوتا تو وہ اٹلی کے وزیراعظم کو یاد دلاتا کہ مغربی دنیا تو دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنے نکلی ہے، اس جنگ میں اسلامی تہذیب اور مغربی تہذیب کی کشمکش اور اسلامی تہذیب کی شکست کا پہلو کہاں سے نکل آیا؟ مگر چونکہ امتِ مسلمہ کا کوئی ترجمان نہیں ہے اس لیے اٹلی کے وزیراعظم کو اپنے بیان کے ذریعے جو پیغام دینا تھا وہ دے دیا گیا۔ لیکن اس کے بعد مغرب میں اس سے بھی بڑی واردات ہوئی۔ امریکہ کے اُس وقت کے اٹارنی جنرل ایش کرافٹ نے واشنگٹن ڈی سی میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اچانک اسلام اور عیسائیت کے خدا کا موازنہ کر ڈالا۔ انہوں نے فرمایا کہ عیسائیت کا خدا اسلام کے خدا سے برتر ہے کیونکہ عیسائیت کے خدا نے عیسائیوں کی نجات کے لیے معاذ اللہ اپنے بیٹے حضرت عیسیٰ کو سولی پر لٹکا دیا، اس کے برعکس اسلام کا خدا ایسا خدا ہے جو اپنی عظمت کے اظہار کے لیے جہاد کی صورت میں مسلمانوں سے قربانیاں طلب کرتا ہے۔ مسلمانوں کا کوئی ترجمان ہوتا تو ایش کرافٹ سے پوچھتا کہ تمہیں دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں اسلام اور عیسائیت کے تصورِ خدا کے موازنے کی ضرورت کیوں پڑی ہے؟ اس کے بعد مغرب سے ایک اور بڑی واردات سامنے آئی۔ یورپ میں امریکہ کی افواج کے سابق کمانڈر جنرل کلارک نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے صاف کہا کہ ہم اسلام کی تعبیر کا تعین کرنے کے لیے گھر سے نکلے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ طے یہ کرنا ہے کہ اسلام ایک پُرامن مذہب ہے جیسا کہ مسلمان کہتے ہیں، یا اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو اپنے ماننے والوں کو تشدد پر اکساتا ہے۔ اس بیان سے بھی یہی ثابت ہوا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی اصطلاح دھوکا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ مغربی دنیا اسلام، اسلامی تہذیب اور مسلمانوں کی بیخ کنی کرنے کے لیے متحرک ہے۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ آخر مغرب کو اسلام اور مسلمانوں سے نفرت کیوں ہے؟

اس سوال کا ایک جواب یہ ہے کہ اسلام اور مغرب کی کشمکش حق و باطل کی کشمکش ہے۔ اسلام حق ہے اور مغرب باطل۔ اور انسانی تاریخ میں نہ کبھی حق نے باطل کو قبول کیا ہے اور نہ کبھی باطل نے حق کو سراہا ہے۔ جو شخص اسلام اور مغرب کی کشمکش کو اس تناظر میں نہیں دیکھتا اُسے اسلام اور مغرب کے بارے میں کوئی بنیادی بات معلوم نہیں۔ مغربی دنیا کو اسلام اور مسلمانوں سے اس لیے بھی نفرت ہے کہ مغرب اسلام کو من گھڑت مذہب سمجھتا ہے۔ اس کی نظر میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پیغمبر ہی نہیں ہیں۔ اس کے باوجود پوری انسانی تاریخ میں اسلام کی طرح تیزی سے پھیلنے والا مذہب کوئی نہیں۔ اسلام کا ظہور عیسائیت کے ظہور کے کم و بیش 600 سال بعد ہوا، مگر آج اسلام دنیا میں سب سے بڑا مذہب ہے۔ عیسائیت دعویٰ کرتی ہے کہ وہ سب سے بڑا مذہب ہے، مگر عیسائیت کے گھر یورپ کا یہ حال ہے کہ اس کی 55 کروڑ کی آبادی میں سے 75 فیصد افرادکا کوئی مذہب ہی نہیں۔ چنانچہ سب سے بڑا مذہب ہونے کے حوالے سے عیسائیت کا دعویٰ جھوٹا ہے۔ مغرب جب دیکھتا ہے کہ اسلام پھل پھول رہا ہے اور تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے تو اس کا سینہ حسد سے شق ہوجاتا ہے۔ مغربی دنیا کی اسلام اور مسلمانوں سے نفرت کا ایک اور سبب بھی ہے، اور وہ یہ کہ مغرب کی پیدا کردہ جدیدیت ہر مذہب کو کھا گئی ہے۔ عیسائیت مغرب بالخصوص یورپ میں ایک مُردہ مذہب ہے۔ جہاں عیسائیت زندہ بھی ہے وہاں اس کا سیاست و معیشت سے کوئی تعلق نہیں۔ ہندو ازم ایک بڑا مذہب ہے، مگر ہندوازم بھی جدیدیت کے مقابلے پر پسپا ہوگیا ہے۔ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے۔ بلاشبہ ہندوستان میں بی جے پی برسرِاقتدار ہے، مگر ہندوازم کا ریاست و سیاست میں کوئی عمل دخل نہیں۔ اسرائیل یہودی ریاست ہے، مگر اسرائیل آئینی اعتبار سے سیکولر ہے۔ بدھ ازم تقریباً فنا ہوچکا ہے اور اس کا بھی ریاست و سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کے برعکس اسلام کا معاملہ یہ ہے کہ تمام تر ابتر حالات کے باوجود وہ ایک زندہ مذہب ہے۔ اس کا نظامِ عقاید زندہ ہے۔ اس کا نظامِ عبادات زندہ ہے۔ اس کا نظامِ اخلاق زندہ ہے۔ اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ پوری امتِ مسلمہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے، اور ریاست و سیاست، معیشت و قانون، اور جنگ و امن سمیت زندگی کے تمام معاملات اسلام کی روشنی میں طے کیے جائیں گے۔ 19 ویں صدی میں مغرب کے دانش ور کہا کرتے تھے کہ اسلام دنیا کو جو کچھ دے سکتا تھا، دے چکا، اب اس کے پاس دنیا کو دینے کے لیے کچھ نہیں۔ اب اسلام صرف عقاید، عبادات اور اخلاقیات تک محدود ہوگا۔ مگر اقبالؒ اور مولانا مودودیؒ کی فکر، اور حسن البناءؒ کی برپا کی ہوئی تحریک نے اسلام کو 20 ویں صدی کا مرکزی حوالہ بنادیا۔ آج ساری مسلم دنیا صرف اسلام کو اپنی نجات کے لیے کافی سمجھتی ہے۔ مسلمانوں کو انسانوں کے بنائے ہوئے کسی ازم پر کوئی اعتبار نہیں۔ انہیں اعتبار ہے تو اسلام پر۔ 1979ء میں ایران کے انقلاب نے ثابت کر دیا کہ اسلام آج بھی ایک انقلابی قوت ہے اور وہ کسی بھی وقت ریاست و سیاست، معیشت اور آرٹ کے نقشے کو بدل سکتا ہے۔ مغربی دنیا یہ سب دیکھتی ہے تو اس کا دل اسلام اور مسلمانوں کی نفرت سے بھر جاتا ہے۔ اس وقت اسلام اور مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ عالمی اسٹیج پر انہیں کہیں غلبہ حاصل نہیں۔ اسلام اور مسلمانوں کے پاس نہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی طاقت ہے، نہ ان کے پاس عسکری طاقت ہے، نہ ان کے پاس قابلِ رشک معیشت ہے، یہاں تک کہ مسلمانوں کے پاس کردار کے اعلیٰ نمونے بھی نہیں ہیں، مگر اس کے باوجود اسلام مغرب میں لاکھوں اہلِ مغرب کو مسلمان کررہا ہے۔ مسلمان ہونے والوں میں مفکرین بھی ہیں، دانش ور بھی۔ گلوکار بھی ہیں، صحافی بھی۔ ڈاکٹر بھی ہیں انجینئر بھی۔ مغربی دنیا یہ دیکھتی ہے اور سوچتی ہے کہ اسلام بے طاقتی میں اتنا مؤثر ہے تو جب اسلام کے پاس طاقت ہوگی تو اس کے اثرات کا کیا عالم ہو گا؟ مغرب کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے متبادل کے خوف میں مبتلا ہے۔ سوشلزم سرمایہ داری کا متبادل تھا، اس لیے مغرب نے سوشلزم کا تعاقب کیا اور اسے فنا کرکے چھوڑا۔ مغرب اسلام کو بھی اپنا متبادل سمجھتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اگر اسلام کے نظام حیات کو کام کرنے کا موقع مل گیا تو پوری مسلم دنیا سے مغرب کا پتّا صاف ہو جائے گا۔ چنانچہ مغرب اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتا رہتا ہے۔