مائل ضبط بھی آمادۂ فریاد بھی ہے
مائل ضبط بھی آمادۂ فریاد بھی ہے
دل گرفتار محبت بھی ہے آزاد بھی ہے
داستان دل مایوس نہ پوچھ اے ہمدم
یہ وہ بستی ہے جو آباد بھی برباد بھی ہے
اے مرے ضبط کو کامل نہ سمجھنے والے
قابل داد مری کوشش فریاد بھی ہے
اڑ کے جاؤں بھی تو کیا اور نہ جاؤں بھی تو کیا
منتظر برق بھی ہے تاک میں صیاد بھی ہے
کیا لکھوں کیا نہ لکھوں سرخی افسانۂ دل
غم بھی ہے درد بھی حسرت بھی ہے فریاد بھی ہے
دل دیوانہ کی تو ہستیٔ ہشیار نہ پوچھ
یہ گرفتار قفس طائر آزاد بھی ہے
میری تسکین تو کر بھول کے اتنا تو بتا
یاد رکھنے کا جو وعدہ تھا تجھے یاد بھی ہے
اک روشؔ دل کی ہو اے عرشؔ تو کچھ بات بھی ہو
کیا مصیبت ہے کہ یہ شاد بھی ناشاد بھی ہے