لٹنے والوں کا مددگار نہیں ہے کوئی

لٹنے والوں کا مددگار نہیں ہے کوئی
اس قبیلے کا بھی سردار نہیں ہے کوئی


میں وہ محروم تمنا ہوں کہ جس کی خاطر
بھری بستی میں عزادار نہیں ہے کوئی


شاہ زادی تری آنکھوں میں یہ دہشت کیسی
پھول ہیں ہاتھ میں تلوار نہیں ہے کوئی


دل کسی وقت کسی پر بھی فدا ہو جائے
یہ وہ کشتی ہے کہ پتوار نہیں ہے کوئی


آنکھ میں اشک نہیں ہیں تو یہی لگتا ہے
اک ستارا بھی نمودار نہیں ہے کوئی


مجھ کو اس بات سے آتا ہے بہت خوف یہاں
سب فرشتے ہیں گنہ گار نہیں ہے کوئی


دیکھ یہ زخم تراشے ہوئے لگتے ہیں تجھے
تو سمجھتا ہے مرا یار نہیں ہے کوئی


اک خلا اور بہت گہرا خلا ہے ساحرؔ
دیکھ آیا ہوں میں اس پار نہیں ہے کوئی