لطف ہی لطف ہے جو کچھ ہے عنایت کے سوا

لطف ہی لطف ہے جو کچھ ہے عنایت کے سوا
ہے محبت سے سوا جو ہے محبت کے سوا


دوستوں کے کرم خاص سے بچنے کے لئے
کوئی گوشہ نہ ملا گوشۂ عزلت کے سوا


مجھ سے شکوہ بھی جو کرتے ہیں تو یہ کہتے ہیں
کچھ بھی آتا نہیں کیا تجھ کو شکایت کے سوا


آپ کے خط کو میں کس بات کا خمار کہوں
اس میں سب کچھ ہے بس اک حرف محبت کے سوا


جس قدر چاہوں گناہوں پہ ہنسوں خوب ہنسوں
یہ علاج اور بھی ہے اشک ندامت کے سوا


شیخ ہی ہوگا جو ملتے نہیں دو چار ایاغ
کون آ سکتا ہے میخانے میں حضرت کے سوا


وہ جو کہتے ہیں کہ ہے فہم و فراست ہم سے
ایسے لوگوں میں سبھی کچھ ہے فراست کے سوا


نہیں معلوم کہ کیوں روح اسی سے خوش ہے
رنج تو اور بھی ہیں رنج محبت کے سوا


رہ گئے راہ امانت میں ملائک تھک کر
مرحلہ طے نہ ہوا یہ مری ہمت کے سوا


تم کو معلوم ہو اے شیخ و برہمن تو کہو
اور بھی کوئی عبادت ہے محبت کے سوا


اس نئی بات کو بھی عرشؔ کبھی سوچا ہے
آج کل شعر میں جدت ہے تو جدت کے سوا