لوگو اے لوگو

مری انتہائے محبت مسرت سوا اس کے کیا اور ہوگی
بجائے کوئی مسند‌‌ عالیہ تخت طاؤس و زر مانگنے کے


بجائے کوئی سر برآوردہ پتھر صفت شخصیت چاہنے کے
تمہاری معیت رفاقت تگ و دو کا انداز مانگوں


یہ جم غفیر ایک سیل رواں زندگی کا جولا سے نکل کر
اسی لا میں پھر ڈوب جاتا ہے یہ ریت ہے یوں ہی جاری


سمندر جو پھیلا ہے ہر چار جانب افق سے افق تک
سمندر جو ہے آئینہ دار ہستی جہاد مسلسل کشاکش


سمندر جو سفاک ہے اور طوفاں سے لبریز ہے پرجنوں ہے
سمندر جو بے باک ہے جنم داتا ہے اور موت کا نغمۂ سرمدی ہے


یہ سیل رواں یوں ہی بہتا رہا ہے اسی سیل میں ڈوب جاؤں
میں جو ایک قطرہ ہوں گہرائی گیرائی کا حجم کا اس کے بن جاؤں حصہ


مجھے کوئی مکتی نہیں چاہیے کوئی نروان کی آرزو کوئی خواہش نہیں اب
کوئی سلسبیل اور کوثر نجات و جزا پر سکوں کوئی لمحہ


نہیں صرف امواج کی شورش رائیگاں چاہیے یہ اگر رائیگاں ہے