لیڈر سے خطاب
اگر نہیں ہے کوئی کام کام پیدا کر
کہیں سے ڈھونڈھ کے مینا و جام پیدا کر
نہ پھنسنا گردش لیل و نہار میں زنہار
تو روز ایک نئی صبح و شام پیدا کر
تو ہر طرح کے سبھی کام لے غلاموں سے
غلام گر نہیں ملتے غلام پیدا کر
دلوں میں تیر کی مانند جو اتر جائے
تلاش کر کے کچھ ایسا کلام پیدا کر
سنا کے نام سے اپنے خود اعتمادی سے
اساتذہ کی صفوں میں مقام پیدا کر
ترے عتاب سے ڈرتے ہیں جیسے گھر والے
معاشرے میں بھی ایسا مقام پیدا کر
زمانہ آ کے ترے در پہ سر جھکائے گا
کسی طرح سے سیاست میں نام پیدا کر
جو عارضی ہی سہی چند راحتیں لے کر
ضمیر بیچ دیں ایسے عوام پیدا کر
رہیں گی دو سے زیادہ بھی جس میں تلواریں
کسی طرح سے اک ایسی نیام پیدا کر
لگا کے پان میں کھائے تو قوم سو جائے
ملا کے بھنگ نیا اک قوام پیدا کر
تو چاہتا ہے تری ؔخواہ مخواہ شہرت ہو
خودی کو بیچ امیری میں نام پیدا کر