لوٹ کر جیسے دور شباب آ گیا

لوٹ کر جیسے دور شباب آ گیا
آپ کیا آ گئے انقلاب آ گیا


اس طرح دل کے ارمان پورے ہوئے
نامہ بر لے کے خط کا جواب آ گیا


دیکھنے کو ترستی تھیں آنکھیں جسے
سامنے وہ مرے بے حجاب آ گیا


گلشن دل پہ اک تازگی چھا گئی
بن کے وہ اک مجسم گلاب آ گیا


عالم خواب میں جس کو پڑھتا تھا میں
روئے زیبا کی لے کر کتاب آ گیا


جس کے جانے سے تاریک تھی زندگی
خانۂ دل میں با آب و تاب آ گیا


ذہن ماؤف تھا گنتے گنتے جسے
آج برقیؔ وہ روز حساب آ گیا