لشکر عشق آ پڑا ہے ملک دل پر ٹوٹ ٹوٹ
لشکر عشق آ پڑا ہے ملک دل پر ٹوٹ ٹوٹ
کان میں آتی نہیں ہے جز صدائے لوٹ لوٹ
مل نہیں سکتا خدا ہے اس خودی کے ساتھ میں
اے دل اس قید خودی سے جلد تر اب چھوٹ چھوٹ
برق ساں ہنسنا ترا یاد آوے ہے جس دم مجھے
ابر کی مانند روتا ہوں میں یکسر پھوٹ پھوٹ
ہے صدائے خندۂ گل خار اس کے کان میں
اس لئے کہتا ہوں میں نالہ کو اپنے کھوٹ کھوٹ
تیرے کفر زلف کی ڈوری میں اکثر اہل دیں
قید دیں داری سے بھاگے ہیں نکل کر چھوٹ چھوٹ
کوئی کافر ہی نہیں جز نفس خود اس دہر میں
پس اسی کافر کے سر کو رات دن تو کوٹ کوٹ
آ گیا بحر حقیقت کا ہی گوہر ہاتھ میں
ہے ملا جب سے شہ خادم سے آثمؔ ٹوٹ ٹوٹ