لمحوں میں ایک عمر کی محنت خراب کی

لمحوں میں ایک عمر کی محنت خراب کی
اس دھوپ نے مکان کی رنگت خراب کی


رستے میں پھول دیکھ کے ہم لوگ ڈر گئے
کس نے ہمارے پاؤں کی عادت خراب کی


عجلت پسند ہاتھ میں آئے ہوئے تھے ہم
کچھ گاہکوں نے پوچھ کے قیمت خراب کی


یعنی میں اس کے بعد بھی خوش ہوں یہ سوچ کر
کمرے کی جان بوجھ کے حالت خراب کی


ویسے یہ عشق کون سا لکھا تھا بخت میں
ہم نے تو اپنی آپ ہی قسمت خراب کی


کس نے ہمارے نام پہ بیچے ہیں قہقہے
کس نے ہمارے نام کی شہرت خراب کی


تنگ آ کے آسماں سے نکالا گیا ہمیں
تھوڑی بہت جو تھی یہاں وقعت خراب کی


ساحرؔ جنون شوق میں کیا کیا نہیں کیا
مٹی پلید کی کبھی عزت خراب کی