لہو کا ہنر آزماتے رہیں گے

لہو کا ہنر آزماتے رہیں گے
چراغ آندھیوں میں جلاتے رہیں گے


زمانہ ستم ہم پہ ڈھاتا رہے گا
ہر اک غم پہ ہم مسکراتے رہیں گے


سماں ہو خوشی کا یا غم کا ہو موسم
ہم اپنا فسانہ سناتے رہیں گے


رہیں گے رواں میری آنکھوں سے آنسو
ستارے یوں ہی جھلملاتے رہیں گے


نہ بدلے گی جب تک فضا گلستاں کی
ہم اپنے لہو میں نہاتے رہیں گے


مسلط کہاں تک رہیں گے اندھیرے
مرے زخم دل جگمگاتے رہیں گے


محبت کے دشمن ہیں جتنے بھی نجمہؔ
انہیں آئنہ ہم دکھاتے رہیں گے