ہر ایک سمت ہے چھایا سکوت کا منظر
ہر ایک سمت ہے چھایا سکوت کا منظر
دھڑک رہا ہے مگر زلزلہ مرے اندر
زمیں کا ظرف فلک کا وقار رکھتے ہیں
زمیں نژاد سہی آسمان پر ہے نظر
ڈرا نہ پائیں گے ہم کو یہ سرپھرے طوفاں
کہ موج عزم تو جا کر رکے گی ساحل پر
تجھے یہ ناز کہ مریخ تک تو جا پہنچا
مگر نظر نہیں آتا ہے تجھ کو اپنا گھر
یہ ظلمتوں کے پجاری ہیں ان سے کچھ نہ کہو
دکھائی دیتے ہیں باہر سے آئنہ پیکر
گزر رہی ہے عجب کشمکش میں میری حیات
نہ چین گھر کے ہے اندر نہ گھر کے ہے باہر
عجیب شہر کا عالم ہے آج اے نجمہؔ
نہ سامنے کوئی منظر نہ اب ہے پس منظر