لگے ہوئے تھے سبھی شور ہی مچانے میں
لگے ہوئے تھے سبھی شور ہی مچانے میں
جبھی تو دیر لگی آگ کو بجھانے میں
وگرنہ مجھ سے کوئی کام ہی نہ ہو پائے
کچھ ایسی برکتیں ہیں تیرے مسکرانے میں
عجیب سائے سکونت کیے ہوئے تھے یہاں
بڑا سکون ملا ہے یہ گھر جلانے میں
بچا سکا نہ ترا عشق دکھ تو ہے لیکن
لگا ہوا ہوں میں اب نوکری بچانے میں
جو ہو سکے تو مرے ہجر میں اضافہ کر
کہ مجھ سے دیر ہوئی تجھ سے دل لگانے میں
بہا کے لے گیا دریا تمام بستی کو
مگر یہ لوگ رہے کشتیاں بنانے میں
مرے مکاں کے اندھیروں کو کون سمجھائے
خوشی ملی جو ہوا کو دیا بجھانے میں
جو نام ہم نے کمایا ہے عشق میں ساحرؔ
جناب قیس کو صدیاں لگیں کمانے میں