لفظوں کی سنگلاخ سلوں میں سمو دیا

لفظوں کی سنگلاخ سلوں میں سمو دیا
یاروں نے فن کے پھول کو پتھر میں بو دیا


میری حقیقتوں پہ نہ تو ہنس کہ تجھ کو بھی
جدت کے شوق نے سر ساحل ڈبو دیا


ڈستی ہے اب بھی دل کو کسی کی ٹھٹھکتی چاپ
اک آب جو پہ جلتا ہے جب شام کو دیا


کیسا خیال ہے یہ کہاں کی ہے طرز فکر
آیا تو وہ لجا گیا بچھڑا تو رو دیا


ٹوٹی جو گر کے جھیل کے درپن پہ اک کرن
موج صبا نے روح میں کانٹا چبھو دیا


کل شب مری کی مال پہ لنٹاٹ سے پرے
بارش نے اس کا چاند سا پیکر بھگو دیا


کیسے کہوں کہ رت کی کڑی رو سے ہار کر
جیون کے اس سفر میں تجھے میں نے کھو دیا