لڑکھڑاتی ہوا روز کہتی ہے کیا شہر والو سنو

لڑکھڑاتی ہوا روز کہتی ہے کیا شہر والو سنو
ایک پودا کوئی آج پھر جل گیا شہر والو سنو


آ گئے ریت کے ڈھیر دیوار تک بلکہ بازار تک
دشت کے ہاتھ لکھ دیں نہ پھر فیصلہ شہر والو سنو


کیا ستم خیز اجالوں سے اچھے ہمارے اندھیرے نہیں
جنگلوں نے تمہیں کیا نہیں کہہ دیا شہر والو سنو


کوئی تم میں یزید اور شبیر ہے کس کی تقصیر ہے
لوگ کہنے لگے شہر کو کربلا شہر والو سنو


خاک منہ میں مرے ہم پہ کیا کوئی تازہ بلا آئے گی
رو رہا ہے بہت دن سے کوہ ندا شہر والو سنو


پھول بن کر کھلو کوئی خوشبو بنو کچھ مداوا کرو
کہہ رہی ہے فلک نا رسیدہ دعا شہر والو سنو