لاکھوں غم چھپائے ہیں اک خوشی کے پردے میں

لاکھوں غم چھپائے ہیں اک خوشی کے پردے میں
درد ہی کے سائے ہیں ہر ہنسی کے پردے میں


کیا یقیں کریں یارو اپنے ہوں کہ بیگانے
دشمنی ہی پاتے ہیں دوستی کے پردے میں


یہ بھی تو حقیقت ہے تلخ ہی سہی لیکن
موت ہی کے سائے ہیں زندگی کے پردے میں


حسرتوں کی بستی میں ہے جنازہ ارماں کا
کلفتیں ہی پاتے ہیں دل لگی کے پردے میں


وہ جفا کے خوگر ہیں ہم وفا کے پروردہ
الفتیں بھی پاتے ہیں برہمی کے پردے میں


اپنی کم نصیبی کا کیا کریں گلہ عازمؔ
تیرگی ہی پاتے ہیں روشنی کے پردے میں