اس گردش مدام سے گھبرا گیا ہوں میں
اس گردش مدام سے گھبرا گیا ہوں میں
رفتار ایک سی ہے تو اکتا گیا ہوں میں
ہر پل ہجوم یاس کا پیکر بنا ہوا
اکثر اس ایک حال میں دیکھا گیا ہوں میں
پژمردہ زندگی سے تو پیچھا چھٹے کہ بس
ہر دن خوشی کی آس میں مرتا گیا ہوں میں
اپنوں کو اپنا کہتے ہوئے آئے شرم سی
کس کس نظر سے دوستو دیکھا گیا ہوں میں
میں نے ندیم رکھ تو لیا حسن کا بھرم
پر عشق کی چتا میں جلایا گیا ہوں میں
لے کر اٹھا ہوں پھر سے میں اک اور عزم نو
عازمؔ کے نام سے بھی تو جانا گیا ہوں میں