کیوں مرے لب پہ وفاؤں کا سوال آ جائے

کیوں مرے لب پہ وفاؤں کا سوال آ جائے
عین ممکن ہے اسے خود ہی خیال آ جائے


ہجر کی شام بھی سینے سے لگا لیتا ہوں
کیا خبر یوں ہی کبھی شام وصال آ جائے


گھر اسی واسطے جنگل میں بدل ڈالا ہے
شاید ایسے ہی ادھر میرا غزال آ جائے


دھنک ابھرے سر افلاک کڑی دھوپ میں بھی
دشت وحشت میں اگر تیرا خیال آ جائے


کوئی تو اڑ کے دہکتا ہوا سورج ڈھانپے
گرد ہی سر پہ گھٹاؤں کی مثال آ جائے


چھوڑ دے وہ مجھے تکلیف میں ممکن تو نہیں
اور اگر ایسی کبھی صورت حال آ جائے


اس گھڑی پوچھوں گا تجھ سے یہ جہاں کیسا ہے
جب ترے حسن پہ تھوڑا سا زوال آ جائے


کچھ نہیں ہے تو بھلانا ہی اسے سیکھ عدیمؔ
زندگی میں تجھے کوئی تو کمال آ جائے