کیوں کہتے ہو کیا میری جفا کو نہیں دیکھا
کیوں کہتے ہو کیا میری جفا کو نہیں دیکھا
آتے ہوئے کہہ کہہ کے قضا کو نہیں دیکھا
آئینۂ کونین ہیں دونوں مری آنکھیں
تم کو نہیں دیکھا کہ خدا کو نہیں دیکھا
دیکھے تو کوئی تیز روی عمر رواں کی
پھر کر کبھی نقش کف پا کو نہیں دیکھا
ہر خار سے یوں پوچھتی ہے دشت میں لیلیٰ
تم نے تو کسی آبلہ پا کو نہیں دیکھا
کس غش پہ تمہیں ناز ہے اے حضرت موسیٰ
ان کی نگۂ ہوشربا کو نہیں دیکھا
آئینۂ وحدت ہے دل صاف ہمارا
کس بت میں نظر شان خدا کو نہیں دیکھا