کیا کہیں کس سے پیار کر بیٹھے
کیا کہیں کس سے پیار کر بیٹھے
اپنے دل کو فگار کر بیٹھے
صبر کی اک قبا جو باقی تھی
اس کو بھی تار تار کر بیٹھے
آج پھر ان کی آمد آمد ہے
ہم خزاں کو بہار کر بیٹھے
وائے اس بت کا وعدۂ فردا
عمر بھر انتظار کر بیٹھے
خود جو غم ہیں تو آئنہ حیراں
کس غضب کا سنگھار کر بیٹھے
ہم تہی دست تجھ کو کیا دیتے
جان تجھ پر نثار کر بیٹھے