کیا کہیں کس سے کہیں رنجش و آفات کا غم
کیا کہیں کس سے کہیں رنجش و آفات کا غم
اب سہا جاتا نہیں گردش حالات کا غم
ہر گھڑی شعلے برستے تھے بدن پر میرے
کیسے میں بھولتا گزرے ہوئے لمحات کا غم
خواب بھی ٹوٹ گئے دل بھی مرا ٹوٹ گیا
عمر بھر مجھ کو رہا ان سے ملاقات کا غم
میں خوشی پہلی سی اے دوست کہاں سے لاؤں
اب تو ہر وقت مرے پیچھے ہے خدشات کا غم
آج بھی زندہ ہوں میں بن کے اجالوں کا سفیر
اپنی آنکھوں میں سموئے ہوئے ظلمات کا غم
تھک گئی میری زباں کرکے دعا بھی سیفیؔ
کم ہوا پھر بھی کہاں ارض و سماوات کا غم