کیا حسیں رات ہے اس رات سے ڈرتے کیوں ہو

کیا حسیں رات ہے اس رات سے ڈرتے کیوں ہو
آ گئے ہو تو ملاقات سے ڈرتے کیوں ہو


نام آتا ہے مرا جب بھی کسی محفل میں
یہ بتاؤ کہ سوالات سے ڈرتے کیوں ہو


دل لبھانے کے بھی انداز ہوا کرتے ہیں
مست آنکھوں کے اشارات سے ڈرتے کیوں ہو


کئی برسات کے موسم ہیں مری آنکھوں میں
آتی جاتی ہوئی برسات سے ڈرتے کیوں ہو


لوگ اچھوں کو بھی دنیا میں برا کہتے ہیں
کیا کہے گا کوئی اس بات سے ڈرتے کیوں ہو


زندگی ملتی ہے انسان کو جینے کے لئے
مسکراتے رہو صدمات سے ڈرتے کیوں ہو


ذکر ماضی کے تصور سے پریشاں ہو کر
زندہ رہنا ہے تو حالات سے ڈرتے کیوں ہو