کوزۂ دنیا ہے اپنے چاک سے بچھڑا ہوا
کوزۂ دنیا ہے اپنے چاک سے بچھڑا ہوا
اور اس کے بیچ میں افلاک سے بچھڑا ہوا
اس جگہ میں بھی بھٹکتا پھر رہا ہوں آج تک
جس جگہ تھا راستہ پیچاک سے بچھڑا ہوا
دن گزرتے جا رہے ہیں اور ہجوم خوش گماں
منتظر بیٹھا ہے آب و خاک سے بچھڑا ہوا
صبح دم دیکھا تو خشکی پر تڑپتا تھا بہت
ایک منظر دیدۂ نمناک سے بچھڑا ہوا
اس جہان خستہ سے کوئی توقع ہے عبث
یہ بدن ہے روح کی پوشاک سے بچھڑا ہوا
جب بھی تولا بے نیازی کی ترازو میں اسے
وہ بھی نکلا ضبط کے ادراک سے بچھڑا ہوا
اک ستارہ مجھ سے مل کر رو پڑا تھا کل جمالؔ
وہ فلک سے اور میں تھا خاک سے بچھڑا ہوا