کچھ تو رنگینیٔ افکار کھلے

کچھ تو رنگینیٔ افکار کھلے
سیفؔ چل مطلع انوار کھلے


برگ گل جیسے ہوا کے رخ پر
کس لطافت سے لب یار کھلے


تو ذرا بند قبا کھول تو دے
جوہر نافۂ تاتار کھلے


دیکھ اے کوچۂ جاناں کی ہوا
دل کے دروازے کئی بار کھلے


زخم دل ہم نے چھپائے ورنہ
تیری آنکھوں نے کئے وار کھلے


واہ کیا ڈھنگ ہیں صیادوں کے
لوگ پھرتے ہیں گرفتار کھلے


کیا اسی طرح گزر جائے گی
کچھ تو ان پر بھی دل زار کھلے


حسرت دید پس مرگ نہ پوچھ
رہ گئے دیدۂ بے دار کھلے


لب خاموش کو وا کر ظالم
یہ ہے اقرار کہ انکار کھلے


صاف بخشے گئے وہ حشر کے دن
جو نظر آئے گنہ گار کھلے


کعبہ جا کر بھی ہمیں کشف ہوا
بت کدے میں بھی کچھ اسرار کھلے


ہم بھی قسمت کا لکھا دیکھیں گے
سیفؔ چل نامۂ دل دار کھلے