کوئی سوال خدا و صنم نہیں اے دوست
کوئی سوال خدا و صنم نہیں اے دوست
میں کیا کروں مری گردن میں خم نہیں اے دوست
ہمیں یہی ہے مناسب کہ ایک سو ہو لیں
جگہ میان وجود و عدم نہیں اے دوست
خوشامدوں سے نکلتا نہیں ہے کام یہاں
معاملہ ہے خدا سے صنم نہیں اے دوست
اگرچہ سرد اندھیرے ہیں باعث تکلیف
مگر یہ گرم اجالے بھی کم نہیں اے دوست
عجب مزاج ہے ان مے کدہ نشینوں کا
کہ قدر جام تو ہے قدر جم نہیں اے دوست
کھلا ہے اور کھلے گا جمیلؔ سب کے لیے
یہ مے کدہ ہے کنشت و حرم نہیں اے دوست