کوئی رکنے کی ترے شہر میں تدبیر نہ تھی

کوئی رکنے کی ترے شہر میں تدبیر نہ تھی
میرے ہاتھوں میں تری زلف بھی زنجیر نہ تھی


دیکھ کر تم کو سرابوں کا تماشا سا رہا
خواب تھا یہ بھی کسی خواب کی تعبیر نہ تھی


سو چکا تھا کسی معصوم فرشتے کی طرح
اس کی آنکھوں میں تو قاتل کی بھی تصویر نہ تھی


ریگزاروں سے لگاؤ رہا یوں ہی ورنہ
ریت پر میرے لئے کوئی بھی تحریر نہ تھی


اتنی قربت پہ وہ بیگانہ رہا کیوں مجھ سے


اس کے دل میں کوئی دیوار تو تعمیر نہ تھی


سر قلم ہوتے رہے نام پہ چاہت کے مگر
کوئی رانجھا نہ تھا بستی میں کوئی ہیر نہ تھی


آج فن کار ہے اک مٹی کے ڈھیلے کی طرح
تھی تو پہلے بھی پر اتنی کبھی تحقیر نہ تھی