کوئی پوچھے تو اس دوانے سے

کوئی پوچھے تو اس دوانے سے
عشق بڑھتا ہے آزمانے سے


اس کی یادیں ہیں درد کا درماں
درد بڑھتا ہے بھول جانے سے


کوئی صورت نکال ملنے کی
خواب ہی میں کسی بہانے سے


تیری یادوں سے گھر چمکتا ہے
روشنی ہے یہ دل جلانے سے


دامن یار پر کہ آنکھوں میں
کام اشکوں کو ہے ٹھکانے سے


ہیں تمہارے نئے نئے سپنے
اور مرے خواب کچھ پرانے سے


اب ہٹاؤ بھی جھوٹ کا پہرہ
سچ نکالو ذرا خزانے سے


کوئی دو چار دن کی بات نہیں
چاہتا ہوں تجھے زمانے سے


شاہؔ کی جستجو میں دیوانے
بعض آئے نہ زخم کھانے سے