کوئی نگاہ سے آیا گماں میں پھیل گیا

کوئی نگاہ سے آیا گماں میں پھیل گیا
بلا کا لطف مرے جسم و جاں میں پھیل گیا


فضول کام سمجھتا تھا شاعری کو مگر
یہ کاروبار تو سارے جہاں میں پھیل گیا


کسی سے تلخ کلامی کے ہم نہیں قائل
تمہارا زہر ہماری زباں میں پھیل گیا


تمہیں تو ایسے ترقی ملی یہاں جیسے
اٹھا زمیں سے دھواں آسماں میں پھیل گیا