کوئی نہیں آتا سمجھانے

کوئی نہیں آتا سمجھانے
اب آرام سے ہیں دیوانے


طے نہ ہوئے دل کے ویرانے
تھک کر بیٹھ گئے دیوانے


مجبوری سب کو ہوتی ہے
ملنا ہو تو لاکھ بہانے


بن نہ سکی احباب سے اپنی
وہ دانا تھے ہم دیوانے


نئی نئی امیدیں آ کر
چھیڑ رہی ہیں زخم پرانے


جلوۂ جاناں کی تفسیریں
ایک حقیقت لاکھ فسانے


دنیا بھر کا درد سہا ہے
ہم نے تیرے غم کے بہانے


پھر وحشت آئی سلجھانے
ہوش و خرد کے تانے بانے


پھر اپنے آنچل سے ہوا دی
شعلۂ گل کو باد صبا نے


پھر وہ ڈال گئے دامن میں
درد کی دولت غم کے خزانے


آج پھر آنکھوں میں پھرتے ہیں
عہد تمنا کے ویرانے


پھر تنہائی پوچھ رہی ہے
کون آئے دل کو بہلانے


سیفؔ وہ غم بھی تشنۂ خوں ہے
ہم زندہ ہیں جس کے بہانے