کتنی بلندیوں پہ سر دار آئے ہیں

کتنی بلندیوں پہ سر دار آئے ہیں
کس معرکہ میں اہل جنوں ہار آئے ہیں


گھبرا اٹھے ہیں ظلمت شب سے تو بارہا
نالے ہمارے لب پہ شرربار آئے ہیں


اے قصہ گو ازل سے جو بیتی ہے وہ سنا
کچھ لوگ تیرے فن کے پرستار آئے ہیں


پائی گلوں سے آبلہ پائی کی جب نہ داد
دیوانے ہیں کہ سوئے لب خار آئے ہیں


غم خواریوں کی تہہ میں دبی سی مسرتیں
یوں میرے پاس بھی مرے غم خوار آئے ہیں


پہنچے ہیں جب بھی خلوت دل میں تو اے ندیم
اکثر ہم اپنے آپ سے بیزار آئے ہیں


اس بزم میں تو مے کا کہیں ذکر تک نہ تھا
اور ہم وہاں سے بے خود و سرشار آئے ہیں