کسی کی کھوئی ہوئی یاد کے اشارے پر
کسی کی کھوئی ہوئی یاد کے اشارے پر
میں رنگ ڈھونڈنے نکلا ہوں اس ستارے پر
بھلے یہ میرا بدن ریت بن کے اڑ جائے
میں اپنے زور میں بہتا رہوں گا دھارے پر
وہی دمکتے ہوئے سرخ لب وہی آنکھیں
گمان جن کا ہوا تھا مجھے شرارے پر
جگہ جگہ سے ہوا کاٹنے لگی ہے بدن
بکھر نہ جائیں چھتوں پر کہیں ہمارے پر
مری گرفت میں آتے نہیں تھے جس کے خواب
اسی نے دی تھیں یہ آنکھیں مجھے خسارے پر
میں پار کر چکا دریائے خواب جب ساجدؔ
تو وہ دکھائی دیے دوسرے کنارے پر